ابرار حسن کا خاندان
ابرار حسن نے اپنی دو بہنوں اور ایک بھائی سے
زیادہ عمر پائی ہے۔ ان کی سب سے بڑی بہن پھیپھڑوں کی کمزوری کا شکار ہو کر سنہ دو
ہزار پانچ میں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی دوسری بہن جو ان سے دو سال بڑی تھیں
سنہ انیس سو اٹھانوے میں فوت ہوئیں۔ خون کی ایک گٹھلی ان کے دماغ کی ایک شریان میں
داخل ہوگئی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے زندگی کے آخری تین دن بیہوشی کی حالت میں
گزارے۔ ابرار حسن کے چھوٹے بھائی اسرار حسن اکہتر سال کی عمر میں سنہ دو ہزار
پندرہ میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ اسرار حسن لبلبے کے سرطان میں مبتلا تھے۔
ابرار حسن کی اولاد
ابرار حسن کے تین بچے ہیں۔ سب سے بڑی لڑکی،
زرینہ حسن اور اب زرینہ مسرور جو فروری دس، سنہ انیس سو باسٹھ میں پیدا ہوئیں؛
زرینہ کی شادی مسرور احمد علوی سے ہوئی ہے۔ درمیان میں، علی حسن سمندطور جو مارچ
گیارہ، سنہ انیس سو ترسٹھ میں پیدا ہوئے اور جن کی شادی حنا وائیں سے ہوئی ہے۔ اور
سب سے چھوٹا لڑکا عماد الحسن جن کی تاریخ پیدائش اگست چودہ سنہ انیس سو پینسٹھ ہے
اور جن کی شادی عنبرین آفندی سے ہوئی ہے۔
ابرار حسن کی ریٹائرمنٹ
ابرار حسن نے سنہ دو ہزار بیس میں ریٹائرمنٹ
لی۔ وہ اب بھی گھر سے کام کرتے ہیں اور موکلوں کو قانونی مشورے دیتے ہیں۔
ابرار حسن کی سرطان سے جنگ
سنہ دو ہزار انیس میں ایک طبی رپورٹ میں
ابرار حسن کے سینے میں ایک زہریلی رسولی کا سراغ ملا۔ سنہ دو ہزار بیس میں ایک
جراحی سے وہ رسولی نکال دی گئی۔ جراحی کے بعد ابرار حسن ریڈیئیشن تھراپی سے
گزرے تاکہ سرطان کے تمام خلیوں کو ہلاک کیا جاسکے۔
ابرار حسن کی پھیپھڑوں کی پتھراش سے
جنگ
سنہ دو ہزار اکیس میں ایک طبی معائنے سے یہ
بات سامنے آئی کہ ابرار حسن کے پھیپھڑے پتھرا رہے ہیں۔ پھیپھڑوں کی پتھرائش
کے مریض، مرض کی شروعات بعد دو سے چار سال زندہ رہتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی تاکید کے
مطابق ابرار حسن رات کے وقت آکسیجن کی نلکی کا استعمال کرنے لگے۔ نومبر دو ہزار
چوبیس میں ایک اور طبی معائنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ابرار حسن کا بایاں
پھیپھڑا مکمل طور پہ ناکارہ ہوچکا ہے اور دایاں پھیپھڑا بھی تنزلی کا شکار ہے۔ آج
کل ابرار حسن دن میں بیس سے بائیس گھنٹے آکسیجن کا استعمال کرتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ابرار حسن کا دائرہ کار
محدود ہوا ہے۔ سنیچر، فروری آٹھ کی صبح
ابرار حسن اپنے کمرے میں گرے اور ان کی کمر میں دائِیں طرف چوٹ آئی۔ اس چوٹ کے بعد
ان کا چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔ اتوار، فروری نو کے روز ابرار حسن آغا خان یونیورسٹی
اسپتال کے ہنگامی وارڈ پہنچے۔ کولھے کے ایکسرے سے معلوم ہوا کہ ان کی ہڈیاں صحیح
سلامت ہیں۔ انہیں اسی شام اسپتال سے گھر روانہ کردیا گیا۔